دُعاؤں کی پرچھائیاں


سمندر کے سفر میں تو ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
سفر صØ+را کا کرتا تھا، گھٹائیں ساتھ چلتی تھیں
میں جنگل میں گیا جب بھی، صدائیں ساتھ چلتی تھیں
ہر اک گلشن میں اُس کی کچھ ادائیں ساتھ چلتی تھیں
سفر پہلے بھی کرتا تھا، سفر میں اب بھی کرتا ہوں
مگر بس فرق اتنا ہے کہ اب مجھ کو
ہواﺅں کی، گھٹاﺅں کی، نہ اب اُس کی صداﺅں کی،
اداﺅں کی ضرورت ہے۔
کہ اب پرچھائیاں ہیں کچھ جو میرے ساتھ چلتی ہیں
اور ان پرچھائیوں میں اُس کو اکثر ڈھونڈتا ہوں میں
اُسے جب ڈھونڈ لیتا ہوں
تو میرے ساتھ اُس کی بس دعائیں ساتھ چلتی ہیں

شاعر: عرفان مُرتصٰی​